Islahih_writer

Add To collaction

’’دوچار مٹھی دانہ چبا لیتے ہیں ، تب جا کر کہیں سکون ملتا ہے ‘‘

اب سے  بیس پچیس سال  پہلے کا  ذکرہے ،  شام کے تین بجے  تھے ، بھرسائیں کی منڈئی میں تل رکھنے کی جگہ نہیں تھی ۔ قیامت کی بھیڑ تھی، دانہ بھجانے والوں میں اکثریت بچوں کی تھی، اس دور میں یہ ذمہ داری بچوں ہی کو دی جاتی تھی ۔ویسے بھی اس زمانے کے گاؤں  کے بچے اسی طرح کے  محاذ پر بھیجے جاتے تھے ۔ صبح صبح گوشت کی دکان بھی  ان کی ہی اکثریت ہوتی تھی ۔ شور مچا تے تھے،گلے پھاڑتے تھے ،  ایک بات با ر بار دہرا تے تھے ، بالآخر فاتح کی طرح لوٹتے تھے، کبھی کبھی ناکامی بھی ہاتھ لگتی تھی۔  اس وقت جنہری(  مکئی) کی فصل کٹی تھی ، اسلئے سب کی مونی( ٹوکری) میں  اسی کے دانے تھے  ۔ مقامی زبان میں کہیں تو برسا ت کی’ سڑی گرمی‘ تھی، امس تھی ، حبس ہو رہا تھا  ۔بھر سائیں میں کہیں  سےبھی ہوا نہیں آرہی تھی۔ بچوں سے گھری بھجائن گرمی سے بے چین تھیں  ، پسینے سے بھیگی ہوئی تھیں ۔ ان کی پیشانی پر بھی پسینے کی بوندیں تھیں ،   بچے بھی بار بار پہلو بد ل رہے تھے،  اندر ہواجانے نہیں دے رہے تھے ۔ الگ الگ پسینے کی بو کے درمیان دانہ بھوجتے بھوجتےبھجائن نے اچانک ہاتھ روکا اور ساڑی   کےپلو سے پسینہ  پونچھتے ہوئےکہا :’’ لڑکو ! تھوڑا ہٹا ، ہوا آوے دا، تنی بے جڑا ی دا۔‘‘( لڑکو!تھوڑا ہٹ جاؤ ، ہوا آنے دو ، تھوڑا سکون لینے دو) پھر اپنی بیٹی کو آواز دی :’’ چنکہیا لوٹا میں پانی لے آو ...جلدی کیہئے۔‘‘ ( چنکہیا لوٹا  میں پانی  لے کر آؤ ، جلدی کرنا)  جب تک چنکہیا پانی نہیں  لے کر آئی، بھجائن  لکڑی کا بینا ( بانس  کےڈنڈے کا دیسی پنکھا) جھلتی رہیں ۔ جیسے ہی چنکہیا آئی ، بھجائن  نے ایک  بار لوٹا منہ کو لگایا اور پورا خالی کردیا۔اس وقت تک بچے دور دورکھڑے رہے  ۔ جیسے ہی بھجائن  نے دانہ بھو جنا شروع کیا ، پھر بچے قریب قریب کھڑے ہوگئے ۔ پوروانچل کی مقامی زبان میں کہیں تو  ’سٹ سٹ ‘کر کھڑے ہوگئے ۔       اپنی مونی سنبھالےہوئے ’پہلے میرا بھونئے  پہلے میرا بھونئے‘کا شور مچا نے لگے ۔  اس طرح چلاتے چلاتے شام کے چھ بج گئے ، کچھ بچوں کا نمبر آیا ہی نہیں ۔ اس بھیڑ میں جس کا بھی نمبر آجاتا ،وہ دانہ بھجا کر کسی  فاتح کی طرح بھر سائیں سے نکلتا ،تین گھنٹے کے دوران بھجائن ایک ہی  بار پانی پینے  رکی تھیں ، ان کا ہاتھ مسلسل چل رہا تھا ۔ وہ ایک ہاتھ سے مٹی کے بڑے برتن میں دانہ ڈالتی تھیں، دوسرے ہاتھ سے اس میں ’بھاڑا‘ (معاوضہ) نکالتی تھیں، اسے قریب میں رکھے لنگی کے پرانے کپڑے  میں جمع کرتی تھیں۔ سورج ڈوبنے کے بعد بھی لالٹین جلا کر دانہ بھونتی تھیں۔ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ کوئی واپس نہ جائے۔   ہر سال مکئی کی فصل کٹنے اور آلو کی کھدائی کے بعد یہی ہوتا تھا ۔ اسی طرح کا شور  ہوتا تھا ،  بس آلو کی کھدائی  کے وقت گرمی نہیں رہتی تھی۔ 
 مکئی کے بھنے ہوئے دانے کا  پردیسی  بے صبری سے انتظار کرتے تھے ۔ ہر سال پابندی سے ممبئی کے تمام رشتہ داروں کے ہاں ’مرہ ‘ (مکئی کا بھنا ہوا دانہ )بھیجا جاتا  تھا۔ بھجائن ممبئی کادانہ بھوننے کیلئے صبح دس بجے ہی سے بھر سائیں دِھکا ( دہکا ) دیتی تھیں۔ سب سے پہلے بڑی بڑی مونیوں میں رکھے پر دیسیوں کےدانے بھونتی تھیں، پھر دوسروں کا نمبر آتا تھا ، یہ دانہ اتنا زیادہ ہوتا تھاکہ بھجا ئن خود سے لے کر آتی تھیں۔ پردیسیوں کیلئے چنا بھی بھجایا جاتا ہے ۔ اسے بھوننے سے   پہلے پانی سےنم کیا جاتا تھا ۔اس عمل کو ’کر مو نا ‘ کہا جاتا ہے۔ کرمونے کی بعد اس میں نمک ہلد ی ڈالی جاتی تھیں۔ آج کے مشین میں بھونے ہوئے چنا کے مقابلہ میں اس میں سوندھا پن زیادہ ہوتا تھا۔ 
  اعظم گڑھ کے بسہم گاؤں کے رہنے والے  منور بسہمی پردیسی ہوگئے ہیں ،ممبر ا میں رہتے ہیں۔ ان سے کالم نگار نے دانہ کے بارے میں پوچھا تو وہ کہنے لگے :’’آج  بھی ہم جب کھانا کھا لیتے ہیں ، جیسے لوگوں کو  بیڑی پینے کی عادت ہوگئی ہے ،  ویسے ہی ہم کو دانہ چبانے کی عادت ہوگئی ہے۔ دوڑ کے جاتےہیں،  دوچار مٹھی دانہ  چبا لیتے ہیں ، تب جا کر سکون ملتا ہے۔  پہلے یہ سب کام  بھر سائیں میں ہوتا تھا ، اب نئی نئی مشینیں آگئی ہیں ، اسی میں  دانہ ’پھٹا پھٹ‘ بھون لیتےہیں  حالانکہ اب بھی بھر سائیں ہے ۔ممبئی آنے سے پہلے میں اعظم گڑھ کے ٹھکما  بازار گیا تھا  ،   وہاں دیکھا کہ ایک بھرسائیں تھی،  ایک شخص نے   دہکا یا تھا ، بڑی سی کڑھائی چڑھایا تھا،  بالو میں  چنا بھون رہا تھا ،  ہاتھ میں اس کے  ایک بڑی سی پلیٹ تھی ، اسی سے الٹ پلٹ رہا تھا چنے کو     ۔‘‘
  وہ مزید بتاتے ہیں :’’  پرانی بھر سائیں میں پتی جھونک جھونک کر بالو گرم کیا جاتا  تھا ، چار پانچ چلکی میں بالو ہوتا تھا ۔   دانہ بھوننے والے کو پتہ ہوتا تھا کہ کون سا گر م  ہے؟ کون ٹھنڈ اہے ؟ کون گرم ہورہا ہے ؟   ان کے پاس کوئی آلہ نہیں تھا لیکن انہیں   اس کا  تجربہ  تھا کہ کس ٹیمپریچر پر کون سا دانہ بھوننا ہے؟ ‘‘
   منوربسہمی اپنے طالب علم کے دور کو یادکرتےہیں۔ وہ بتاتے ہیں :’’۱۹۶۴ء  میں آٹھ میں پڑھ رہا تھا ، اس زمانے میں   لوگ ایک وقت کا کھانا کھاتے تھے ،   دوسرے وقت دانہ  چبا کر سوجاتے تھے۔ کھیتی کسانی اور مویشی کا کام زیادہ رہتا تھا ۔  لوگ موٹا مہین کھاتے تھے،  بیچ بیچ میں گڑ کا شربت  وربت وغیرہ پی  لیتے تھے۔ چارا  بالنے والی مشین چلاتے تھے ، بھوک کری( تیز) لگ جاتی تھی ، تب لوگ    دانہ چبا کر گنے کا رس پی لیتے تھے ۔  ابھی تو لائٹ ناشتہ  اور جانے کیا کیا  ہے ؟اس زمانے میں گاؤں میں یہ سب کچھ نہیں تھا۔  ۱۹۶۰ء سے ۱۹۹۰ء تک یہ سب چلا ۔‘‘

   11
7 Comments

Saba Rahman

21-Jun-2022 02:57 PM

Osm

Reply

Kerry Arroyo

20-Jun-2022 08:33 PM

👌👌👌👌

Reply

Joseph Davis

20-Jun-2022 08:19 PM

Nyc

Reply